Friday 7 March 2014

Mutaa In Islam

متعہ معاشرے کي ايک ناگزيرضرورت ہے.
متعہ کي حقيقت کيا ہے.
متعہ معاشرے کي ناگزير ضرورت کيوں ہے؟
جوانوں کے جنسي مسائل ?
فلسفہ متعہ
ايک اہم نکتہ
متعہ سے پيدا ہونے والي اولاد کا حکم ?
متعہ سے متعلق بحث کا نتيجہ
متعہ معاشرے کي ايک ناگزير ضرورت ہے

اس مقام پر ہم متعہ کے ساتھ ساتھ ان اعتراضات کے جوابات کو جو فلسفئہ متعہ ، اس کے شرائط، حدود ، اور قيود سے ناواقفيت کي بنياد پرپيداہوتے ہيں بيان کريں گے ?اور ا?خر ميں ايک بحث جو ” صيغہ “ کے نام سے يا علمي اصطلاح ميں ”ازدواج موقت “کے نام سے نشر ہوئي تھي جو مذہبي اور حقوقي مسائل ميں صلاحيت نہ رکھنے والے افراد کي دخل اندازي کا ايک نمونہ ہے بحث کريں گے ?
اس مجلے کو شائع کرنے والے افراد بے ربط اور فريب دينے والے موضوعات کو فروغ دينا چاہتے ہيں اور اسلام کے اس قانون کو زہر ا?لودہ بنا کر دوسرے رخ سے پيش کرنا چاہتے ہيں ?
???صرف يہي لوگ قوانين اسلامي سے واقف نہيں ہيں بلکہ بہت سے ايسے لوگ بھي مل جائيں گے جو غلط پروپيگنڈوں اور قانون کے غلط استعمال کے سبب يہ سمجھنے لگے ہيں کہ فحاشي اور متعہ ميں سوائے لفظ کے کوئي فرق نہيں ہے ?
يہاں تک کہ اگر کسي کو” فرزند صيغہ “ يا ” ابن الصيغہ “ کہا جائے تو ناراض ہو جاتا ہے گويا جيسے اس کو ناجائز اولاد يا زنا زادہ کہہ کر خطاب کيا ہو ?اس لئے وہ لوگ يہ نتيجہ نکالتے ہيں کہ فحاشي اور متعہ دونوں پر ايک حکم لگايا جائے اور ممنوع قرار دياجائے ?
اس لئے ہم نے اس بات کو ضروري سمجھا کہ اس مسئلہ کو مختصرطور پرہر قسم کے تعصب سے بري ہوکر واضح کيا جائے اور اس کے مبہم اور الجھے ہوئے نکات کو روشن کيا جائے ، تاکہ اہل سنت اور دوسرے ناواقف افراد اس بات کو اچھي طرح سمجھ جائيں کہ يہ اسلامي قانون ايک مکمل ،ترقي بخش، اور اصلاحي حکم ہے، اگر تمام شرائط اور قيود کے ساتھ صحيح طريقے سے اسکا اجراء ہو جائے توفحاشي اور جنسي کجروي کے خاتمہ کے لئے ايک مہم اور موثر عامل ثابت ہو سکتاہے ?

متعہ کيا ہے؟

متعہ جو عوام ميں صيغہ کے نام سے مشہور ہے ، اسلامي قوانين کے مطابق ايک قسم کي شادي کا معاہدہ ہے اس ميں اور شادي ميں سوائے مدت محدود ہونے کے کوئي فرق نہيں ہے ?
متعہ ميں مرد اور عورت جنکي ا?پس ميں شادي ممکن ہو دونوں ايک دوسرے سے ازدواجي معاہدہ کرتے ہيں اور عقد پڑھتے ہيں،مہر اور مدت کو معين کرتے ہيں اور اس کے بعد جو بچہ ان کے ذريعے وجود ميں ا?تا ہے وہ ايک جائز اور قانوني (حلال زادہ )شمار ہوتا ہے اور کے تمام حقوق اور امتيازات کا مستحق ہوتا ہے ?
متعہ کي مدت تمام ہوجانے کے بعد ، ايک دوسرے سے جدا ہوجائيں اور عورت کو عدت رکھني ہوگي ، يعني معين مدت ختم ہونے سے پہلے کسي دوسرے مرد کے ساتھ متعہ يا (ازدواج دائم )شادي کرنے کا حق نہيں رکھتي ہے ? (عدت کا وقت ان عورتوں کے لئے جن کو ماہواري نہيں ?? دن ہے اور جن عورتوں کو ماہواري ا?تي ہے ان کو دو بار حيض سے پا ک ہونا ہے)
عدت کا فلسفہ ايک بديہي امر تاکہ يہ معلوم ہو جائے کہ پہلے شوہر کا نطفہ عورت کے رحم ميں منعقد ہوا ہے يا نہيں ?اگر نطفہ منعقد ہوا ہے تو اس عدت کے عرصے ميں معلوم ہو جائے گا ? اورنطفہ منعقد ہونے کي صورت ميں ظاہر ہے عورت وضع حمل تک دوسري شادي سے اجتناب کريگي ?
اس لئے کہ اگر عورت مذکورہ مدت تمام ہونے سے پہلے جسميںوہ در حقيقت ( حريم زوجيت ) ميں شمار ہوتي ہے کسي دوسرے سے عقد موقت يا عقد دائم کرے تو يہ عقد باطل اور اس کا عمل ”عفت کے منافي “(زنا) شمار ہوگا ، اور ان تمام مکافات اس کے شامل حال ہوجائيں گے جو اسلام ميں اس جرم کے لئے معين ہيں ?
لہذا شادي کے تمام قيود اور دائمي شادي ميں جو بھي شرائط ايک شريک حيات کے لئے معين ہيں ان سب کا (سوائے مدت کے ) متعہ ميں بھي خيال رکھا جائے گا ?
فقہاء نے اسلامي منابع اور ما?خذ کے مطابق اس بات کي وضاحت کي ہے کہ ان دونوں (شادي اور متعہ ) ميںکسي طرح کا کوئي فرق نہيں پايا جاتا ہے سوائے ايک مورد کے ? اور وہ يہ ہے کہ مسلمان کسي غير مسلم سے شادي( ازدواج دائم ) نہيں کرسکتا، ليکن مسلمان مرد غير مسلم عورت سے جو اہل کتاب ہو(جيسے مسيحي يا يہودي) متعہ کر سکتا ہے ?ليکن حقوقي اثرات کي رو سے ان دو نوں ميں دو فرق پائے جاتے ہيں.
?? متعہ ميں عورت اور مرد ايک دوسرے کي ميراث نہيں لے سکتے ( ليکن ان سے پيدا ہونے والي اولاد دونوں سے ميراث حاصل کريگي )، يہ اس صورت ميں ہے اگر عقد متعہ ميں شرط نہ کريں کہ ايک دوسرے سے ميراث حاصل کريں گے ? ليکن اگر عقد متعہ کے وقت يہ شرط رکھي جائے ايک دوسرے سے ميراث حاصل کريں گے تو پھر ايک دوسرے کے لئے ميراث ثابت ہوجائے گي ?
?? متعہ ميں عورت مرد سے نفقہ کا مطالبہ نہيں کر سکتي ہے ، ليکن اس کو مہر کے مطالبہ کا حق حاصل ہے ?مگر قابل توجہ نکتہ يہ ہے چونکہ مہر کي کوئي حد معين نہيں ہے اور دوسري طرف اس عقد کي مدت معاہدہ کے مطابق معلوم ہے لہذا عورت مدت کي مقدار کو ديکھتے ہوئے اپنے خرچ کا پہلے سے اندازہ کرکے اسي طرح مہر ميں اضافہ کر سکتي ہے ?اور شايد اسي نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلام نے اس بات کا حکم ديا ہے کہ عقد متعہ ميں مہر کا واضح طور پر ذکر کرنا ضروري ہے ?
اس لئے ان دونوں حقوقي مورد (يعني ميراث اور نفقہ ) ميں اس حساب کے مطابق متعہ اور شادي ميں کوئي زيادہ فاصلہ نہيں ہے ? اس لئے کہ دونوں (ميراث اور نفقہ ) قابل تغيير اور اور قرار داد کے مطابق ہوتے ہيں (کہ ميراث کوعقد متعہ ميں شرط لگا کر اورنفقہ کو مہر ميں اضافہ کرکے حاصل کيا جا سکتا ہے )?
اوپردي گئي وضاحت سے يہ بات روشن ہو جاتي ہے کہ کم معلومات والے يا غرض مند افراد ہي يہ بات کہہ سکتے ہيں کہ متعہ ميں عورت ايک کنيزيا تجارتي سامان کي مانند کہ جسے خريدا جاتاہے يا ايک قالين يا ايک لباس کي طرح محسوس ہوتي ہے جسے کرائے پر ليا گيا ہو جو بالکل غير منطقي، غير مناسب اور حقيقت سے دور ہے ?
متعہ کے قوانين نے يہ کب کہا ہے کہ عورت کنيز کي طرح ہو جاتي ہے يا ايک سامان کي مانند بيچي يا کرائے پر دي جاتي ہے؟?کيا” متعہ “دوطرفہ ايک ساتھ زندگي گزارنے کے عقد و پيمان کے علاوہ کوئي اور شئي ہے(جسميں صرف مدت کو معين کيا جاتا ہے)?؟ ا?يا يہ دو طرفہ پيمان يا اس کے تمام معاہدے اور شرائط، حقوقي نقطہ نگاہ سے الگ ہيں ?؟
يہ واقعا نا انصافي ہے کہ کوئي انسان کسي ايسے اہم موضوع کے بارے ميں کہ جو معاشرے ميں ايک بڑے برائي کا مقابلہ کر رہا ہو ( جسکا ذکر ا?گے ا?ئيگا)، نا مناسب فيصلہ کرے اور اس کو غلط طريقے سے پيش کرے ?
کيا متعہ ميں طرفين کي مکمل رضايت اور ا?زادي کے ساتھ بغير کسي زبردستي اور جبر کے دونوں کے درميان عقد نہيں ہوتا ?؟ ا?يا يہ صورت حال کہ متعہ کو ايک قسم کي ”شرعي انسان فروشي“ سے تعبير کرناناواقفيت اور بد نيتي کا نتيجہ نہيں ہے ?؟
ا?يا اگر ہم اس قانون کے دامن کو کہ جس کے صحيح اجراء سے فحاشي کا سد باب کسي حد تک ممکن ہے پکڑليں اور اس رسوائي اورذلت کے بجائے اس کو وہ جگہ ديں، تو کيا يہ عورت کي خدمت اور اس کو غلامي اور قيد سے ا?زاد کرنا شمار نہيں ہوگا ؟
غور طلب نکتہ يہ ہے کہ ہمارے بعض دشمنوں نے ” عورت کو کرائے پر دينے“ کي تعبير پر تکيہ کيا ہے ?ہمارے فقہا نے اس بات کي تصريح کي ہے کہ اگر صيغہ متعہ کو لفظ اجارہ کے ساتھ لايا جائے يعني عورت يہ کہے اجرت نفسي( کہ ميں تمہيں اپنا نفس کرائے پر ديتي ہوں ???)تو قطعا عقد باطل ہے ?لہذا يہ موضوع بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ روح متعہ اور روح اجارہ ايک دوسرے کے ساتھ کاملا تضاد رکھتے ہيں جس کي دليل يہ ہے کہ لفظ اجارہ کے ذريعے سے عقد جاري ہونا قطعا باطل ہے ?سوء استفادہ کو قانون کے ذمہ نہيں ڈالنا چاہيے ?
ليکن يہاں پر ايک اساسي نکتہ پايا جاتا ہے اور وہ يہ ہے : مقام افسوس ہے کہ بہت سے ہوس باز لوگ جو اس قانون اسلامي سے ناواقف ہيں کہ جو ايک فطري حکم اور معاشرے کي بنيادي ضرورت ہے ،جس کے صحيح اجراء سے ( جسکا اشارہ کيا جا چکا ہے اور توضيح ا?گے دي جائے گي )فحاشي جيسي بدبختي کا مقابلہ اور معاشرے کي دوسري برائيوں کا بھي خاتمہ کيا جاسکتا ہے ?انہوں نے بہت سے دوسرے قوانين کي طرح اس قانون سے بھي غلط فايدہ اٹھا ياہے،اور اس کے ذريعے ناپاک نيت کے ساتھ اپني شہواني ہوا و ہوس کو بغير کسي قيد وبند کے پورا کرتے ہيں، يہاں تک کہ ہر قسم کي فحاشي اور ذلت کو اس قانون کي ا?ڑ ميں انجام ديتے ہيں اور حد تو يہ ہے کہ متعہ کے تمام شرائط اور قيود کو اس حد تک نيچے پہنچا ديا ہے کہ جب ايک ہوس باز مرد کسي ا?لودہ عورت کے رو برو ہوتا ہے تو صرف ايک جملہ کہنے سے (اس جملے کے مفہوم اور معاني اور اس کے لازم و ملزوم کي رعايت کے بغير)فحاشي يا تمام تر اس کي ذلتيں جائز بنا ليتے ہيں ?
اس طرح کے ظاہري اعمال اور غلط دستاويز خود غرض لوگوں کے ہاتھوں ميں ا?جانے سے انہوں نے اس مورد ميں اپني خطرناک پروپيگنڈے کو ا?گے بڑھاياہے ?اور يہي سبب ہے کہ متعہ کا نام يا عوام کے بقول” صيغہ“اس قدر نفرت کا شکار ہوا کہ قوانين اسلام سے ناواقف افراد اس کوايک قسم کي انسان فروشي کا اسلامي اور شرعي جواز سمجھنے لگے ?يہاں تک کہ مسلمان مرد اور عورتيں بھي اس کو نفرت کي نگاہ سے ديکھتے ہيں اور اس کو عورت کے لئے ذلت و رسوائي کا سبب سمجھتے ہيں ?
ليکن ہم اظہار افسوس کے ساتھ ايک سوال کرتے ہيں وہ يہ ہے: فرض کريں اگر ايک قاضي اپنے مقام اور اس حفاظت اور نگہباني کے ساتھ جو قانون کے پاس موجود ہے سوء استفادہ کرے اور اس کے ذريعے لوگوں کو( ؟؟؟؟سرکيسہ) اور اپنے شخصي مسائل کو سلجھائے يا اس طرح کے دوسرے کام کرے ، تو کيا اس صورت ميںقضاوت کے مسئلے کوسرے سے ختم کر ديا جائے ياقانون کے سوء استفادہ کرنے پر روک لگائي جائے ؟ يا مثلا ايک لکھنے والااپني جيب کو بھرنے کے لئے اپنے فن تحرير کا سوء استفادہ کرتا ہے اور لوگوں کو فريب اورانکي شہوات کو متحرک کرے اور ہنگامہ کرنے والے جھوٹے موضوعات جعل کرے اور مختلف پارٹيوں کے لئے دلالي کرے ، ا?يا قلم کي ا?زادي ، مطبوعات، لوگوںکے افکار کوبيدار کرنے والي تمام سودمند نشريات کو کلي طور پر مسدود کردياجائے، يا فقط سوء استفادہ کرنے والے قلم کو توڑنا چاہيے؟!
کون سي منطق اور عقل اس بات کي اجازت ديتي ہے کہ قوانين اور سودمند قوانين کو بعض لوگوں کے سوء استفادہ کرنے کي وجہ سے ختم کر ديا جائے ?؟ کيا ايک بے نمازي يا سو بے نمازي کي وجہ سے مسجد کے دروازے کو بند کيا جا سکتاہے ?؟
کون سا ايک قانون يا مورد ہے کہ جسکا سوء استفادہ نہيں ہو ا ؟ سوء استفادہ پر روک لگاني چاہيے يا قوانين کو چکنا چور کر دينا چاہيے ؟ مسلم بات ہے کہ ہر عاقل انسان پہلے راستے کو اختيار کرے گا ?
مختصر يہ ہے کہ يہ ان تمام غلط فہميوں سے قانون اسلامي کي ماہيت اور اس کے مفيد ا?ثار اور نتائج پر کوئي فرق نہيں پڑتا ?لہذا ضروري ہے کہ اس قانون کا اجرا کيا جائے اور سوء استفادہ کا سد باب کيا جائے ?

متعہ ،معاشرے کي ضرورت کيوں ہے؟

يہ ايک عام اور کلي قانون ہے :” اگرانسان کے فطري غرائز کو پورا کرنے ميں مناسب قدم نہ اٹھائے جائيں تو وہ اس کو گمراہي کے راستے کي طرف کھينچ ليتے ہيں ہيں ?اس بنياد پر معاشرے کي اصلاح اور برائي کے حوالے سے دو جملوں ميں فيصلہ کيا جا سکتاہے: اصلاح يعني فطري غرائز کے پوراکرنے ميں راہنمائي کرنا اور جسم و روح کي ضرورتوں کا صحيح طريقے سے سامان مہيہ کرنا ?برئي يعني ہدايت کا فقدان اور ضرورتوںکے پورا کرنے ميں کوئي مناسب اقدام نہ کرنا ?
يہ بات بھي قابل انکارنہيں ہے کہ فطري غرائز کو ختم نہيں کيا جا سکتا ہے ?(اور ختم کرنابھي نہيں چاہيے)?ليکن اس کي روش کو بدلا جا سکتا ہے ?
اس بنا پر معاشرے کے فساد کے خاتمے کے لئے بہترين راہ حل يہي ہے کہ انسان کے فطري غرائز اور اس کے جسم و روح کي ضرورتوں کو صحيح طريقے سے شناخت کريں اور معقول طريقے سے اس کو پورا کيا جائے ?
يہ بات واضح ہے کہ اس معاملے ميں معمولي غلطي کا نتيجہ سوائے مفسدہ اور معاشرتي بحران کے کچھ اور نہيں ہو سکتا ?اگر اس حقيقت کے روشن کرنے کے لئے ہم يہاں ايک مثال پيش کريں تو بہتر ہوگا ?
انسان ايک ہي قسم کي فعاليت ،اور اکتا دينے والي يک سوئي سے اکتا جاتا ہے اور ايک ہي طرح کے کام سے تھک جاتا ہا ہے لہذا اس کو تفريح اور تنوع کي ضرورت ہوتي ہے ?اس لئے کہ تفريح اور تنوع تھکے ہوئے اعصاب کے لئے روغن کاري کا کام کرتے ہيں ،اور پزمردہ روح کے لئے نشاط ا?وري کا ?اس کے بغير انسان کي روح اپنا نشاط کھو ديتي ہے اور ايک اضطراب اور سرکشي کي حالت اس کي جگہ لے ليتي ہے ?
اس لئے تفريح اور سرگرمي کا مسئلہ ايک معاشرے کي ضرورت شمار ہوتا ہے ، جس کي مقدار زندگي کي کارکردگي کے مطابق ہوتي ہے ?
ہاں اگريہ تفريح اور سر گرمي سالم اور شرعي راستے اور فطري ضرورتيں صحيح طريقے سے فراہم نہ ہو توپھر يہ افرادغلط اور گمراہ کرنے والي مصروفيات کي طرف مائل ہو جائيں گے اور اپني ضرورت کو اس راستے سے حاصل کريںگے ?

جوانوں کے جنسي مسائل:

اب ہم اس حقيقت کو ”جنسي غريزہکے حوالے سے زير بحث لائيں گے ? جنسي غريزہ کے بارے ميں بہت سے ماہر نفسيات کاکہنا ہے کہ يہ انسان کا قوي ترين غريزہ ہے (يا حد اقل قوي اور طاقتور غرائز ميں سے ايک ہے)
بارہابہت سے جوانوں نے اس مسئلے کوہمارے سامنے کتبي صورت ميں کبھي شفہي صورت ميں پيش کياہے ? ان کے خيال کے مطابق اس وقت پاکيزہ جوانوںکے لئے جنسي مسائل کے راہ حل مسدود ہيں ? اور ان مسائل کو حل کر نے ميں وہ ہم سے مدد مانگتے ہيں ?
اس وقت معاشرے ميں جوانوں کے جنسي مشکلات بہت اہم اور غورطلب ہيں ، اس لئے کہ :
ايک طرف اکثر جوانوں کا مالي اعتبار سے قوي نہ ہوناجس پر تقريبا سبھي جوانوں کا اتفاق ہے ?اور مخصوصا نوجوانوں کا حال کمرتوڑدينے والے اخراجات کے مقابلے ميں، اور اس سے زيادہ سخت تعليم کوجاري رکھنے کا موضوع کہ جس ميں تقريبا ?? سے ?? سال لگتے ہيں ?اور يہ ہي وہ وقت ہے جب جنسي غريزہ طغياني کے عالم ميں ہوتا ہے ، اور اس وقت حالات ان کو شادي کي اجازت نہيں ديتے ?
اور ددسري جانب ”
مطلق پارسائي“ اس غريزہ سے چشم پوشي کرليتي ہے،يہ غريزہ نہايت ہي طاقتور اور سرکش ہوتاہے اور افسوس کامقام يہ ہے اس دور کے تحريک ا?ميز مناظر اس ميں مزيد شدت پيدا کر ديتے ہيں،لہذاس کا مقابلہ بہت سخت اور بعض لوگوں کے لئے نا ممکن ہو جاتا ہے ?
اب سوال يہ ہے کہ کيا کرنا چاہيے ؟ اگرچہ بے ہودہ اور بے لگام افراد فحاشي کے اڈوں پر جاکراپنے گمان ميں اس کواپني مشکل کا حل سمجھتے ہيں ?ليکن ہميں ديکھنا يہ ہے کہ پاک دامن جوانوں کے لئے کيا راہ حل ہے؟
يہ مشکل يونيورسٹي کے طلبہ کے لئے زيادہ اہم ہے کہ جو دکھاوے کے لئے دوسرے ملک جاتے ہيں ، اس لئے کہ تنہائي ، عزيز و رشتہ داروں سے دوري اور لڑکے لڑکيوں کے ساتھ معاشرت کي ا?زادي جيسا کہ مغربي اور امريکي ممالک ميں پائي جاتي ہے، اور اعلي تعليم کے لئے طويل مدت کا درکار ہونااس مسئلہ کو مزيد پيچيدہ بنا ديتا ہے ?اور شادي شدہ افراد بھي اس دور سے گذرتے ہيں کہ زندگي کي ضروريات کي خاطر ان کو کئي مہينوں يا اس سے بھي زيادہ عرصہ کے لئے تجارت يا کسي دوسرے کام کي خاطر باہر جانا پڑتا ہے، اور مہينوں بيوي بچوں سے دور رہنا پڑتا ہے ?اگرچہ معاشرتي ضرور تيں تنہا اسي ميں منحصر نہيں ہيں،بلکہ دوسرے اور بہت سے موارد ہيں جن ميں اس کي ضرورت پيش ا?تي ہے ?

اس مشکل کا راہ حل کيا ہے؟

يہ ايک ايسي حقيقت ہے کہ جس کي ضرورت معاشرے ميں ہميشہ محسوس ہوتي رہي ہے،اور ہمارے اس دور ميں اس کي ضرورت شديد ہو گئي ہے اوراس نے جوانوں کو گھير ليا ہے ?
ا?يا ان حقائق سے چشم پوشي کرکے انہيں فراموش کيا جا سکتا ہے ؟ اوپر ديئے گئے جوابات اور ان جہات سے درگزر کرسکتے ہيں اور حقائق سے ا?نکھ چرا سکتے ہيں؟
جو لوگ ا?نکھ کان بند کرکے يہ کہتے ہيں کہ ” متعہ ايک قسم کي جائز اور شرعي انسان فروشي ہے اور عورت کے مرتبہ کو پست کرديتي ہے“ وہ ہميں بتائيں کہ ان جوانوں کو ہم کيا جواب ديں ؟کيا ايسے لوگوںنے اپني پوري زندگي ميں کبھي جوانوں کي جنسي مشکلات کو سلجھانے کے بارے ميں سوچا ہے ?؟
کيا ان جوانوںکو جواني کے عالم ميں پارسائي اور جنسي امور سے چشم پوشي کي دعوت دي جا سکتي ہے ؟ البتہ ہم اس کا انکار نہيں کرتے اس لئے کہ ممکن ہے کام کچھ جوانوں کے لئے جو زيادہ توانائي اور نفس پر تسلط رکھتے ہيں وہ اس راستے کو اختيار کرليں، ليکن کيا يہ تمام جوانوں کے لئے ممکن ہے؟قطعانہيں ?اپنے دل سے بتائيے کہ متعہ کے بارے ميں جو اعتراض کرتے ہو، تم نے اپنے جواني کے ايام کس طرح گزارے ؟ يا اگر غير شادي شدہ جوان ہو تو کيا کرتے ہو ?؟ ہم تم سے يہ نہيں کہتے کہ اس سوال کے جواب کو سب کے لئے لکھو ، بلکہ خود اپنے نفس کو اس کا جواب دو ?کيا اس طرز تفکر کے ساتھ تم جوانوں کے لئے” سوائے ان کو فساد کے مراکز تک لے جانے کے“ راہ حل پيدا کر سکتے ہو? اگر تمہارے پاس کوئي راہ حل ہے تو پھربتائيے کيوں نہيں کرتے ؟
ا?يا فحاشي اور عورت کا خود کو فروش کرنا اور تمہارے بدنام مراکز کي رسوائي ( لفظ تمہارے اس لئے کہہ رہے ہيں کہ يہ غلط افکار تمہارے بنائے ہوئے ہيں )کيا عورت کي شخصيت کا احترام ہے؟
?ا?يا دنيا کے بہت سے شہروں ميں فساد کے مراکز کا ايجاد کرنا ( ظاہري طور پر يا مخفي طور پر)عورتوں کي کنيزي کے خاتمہ کا سبب يا ا?دم فروشي کے جواز کو ختم کرتا ہے؟
يہ ياد رہے کہ يہ تمام برائي کے مراکز اور ذلت ورسوائي کہ جس ميں ا?ج کا معاشرہ ا?لودہ ہے تمہاري اور تم جيسے افراد کي جنايتوں کا نتيجہ ہے کہ جنہوں نے معاشرے کي اس مشکل کے لئے صحيح راہ حل کے بجائے گمراہي کي نشاندہي کي ہے ?!
ا?يا تم نے متعہ (ان تمام شرائط کے ساتھ جسکي اسلام نے وضاحت کي ہے جسکي طرف پہلے اشارہ کيا جا چکا ہے)کي مخالفت کر کے کہ جسے تم يہ کہتے ہو” کہ لا پروا اور ا?زاد قسم کے لوگ اس پر عمل کرتے ہيں“فحاشي کا کھلے عام اعلان نہيں کيا ؟
کبھي يہ کہا جاتا ہے کہ متعہ کو ہمارے ملک کے مدني قانون سے نکال ديا جائے ؛ اس لئے کہ يہ” حقوق انساني کے منشور“ کے ساتھ مناسب نہيں ہے! ليکن ہم يہ کہتے ہيں کہ يہ چہز جس کا نام منشور حقوق بشر رکھا گيا ہے، جس کي ايک مثال نسل پرستي کا خاتمہ ہے، دنيا کے متمدن ممالک ميں اس پر ا?ج تک عمل نہيں ہو سکا ، اس منشورميں يہ کہاں لکھا ہے کہ متعہ ممنوع اور فحشاء ا?زاد ہے ؟ خدا کے واسطے اس طرح کے منشور جسے تم نے مٹنے کے بعد دوبارہ زندہ کيا ہے اس سے پوچھيں کہ جوانوں کے جنسي مسائل کيسے حل کئے جا سکتے ہيں ؟ کيا وہ بھي تمہاري طرح منفي پروپيگنڈہ کرتا ہے؟
ا?يا يہ بہتر نہيں ہے کہ کہ ا?زادي اور ناجائز تعلقات کے بجائے، جوافراد ايک دوسرے سے رابطہ پيدا کرنا چاہتے ہيں وہ متعہ کا ايک محدود او ر وقتي رشتہ پيدا کرليں اور اس کے تمام شرائط کي رعايت کرتے ہوئے بالکل اسي طرح جيسے ايک شادي شدہ شوہر اور بيوي ايک دوسرے سے مربوط ہوتے ہيں مرتبط ہو جائيں، اور ايک فضا ميں صحيح زندگي بسر کريں، اور اگر نصيب سے کوئي اولاد وجود ميں ا?جائے تو وہ ان سے متعلق رہے ?انصاف سے بتائيے کہ اس عاقلانہ اور عادلانہ قانون ميں کون سي برائي پائي جاتي ہے؟!

متعہ کا فلسفہ:

مذکورہ بالا بيان سے متعہ کا فلسفہ اچھي طرح روشن ہو جاتا ہے ?اسلام نے جنسي مشکلات کے حل کے لئے (خصوصا جوانوں کے لئے )
اور ان تمام افراد کے لئے جو کسي وجہ سے شادي نہيں کرسکتے ہيں راہ حل کي نشان دہي کي ہے اور ان کو پيش کش کي ہے :
اس طرح کي صورت حال ميں اگر کوئي مرد و عورت ايک دوسرے وابستگي پيدا کرناچاہتے ہيں تو بغير اس کے کہ سنگين ذمہ داريوں کو تحمل کريں يعني شادي کريں ، محدود مدت کے لئے متعہ کا رشتہ بر قرار کر سکتے ہيں ، اور اس رشتہ کو بعينہ شادي کے رشتہ کي مانند محترم شمار کريں ?اور عورت” حريم زوجيت “کو مدت کے ختم ہونے کے بعد عدت(حد اقل ?? دن يا دو بار ماہواري سے فارغ ہونے تک) کي تکميل کي رعايت کرے ?
يہ بديہي امر ہے کہ انسان کے لئے متعہ کي ذمہداري شادي کي طرح سنگين نہيں ہے اس ميں طرفين اس کے سہل اور ا?سان شرائط کي رعايت کرتے ہوئے اس عمل کو انجام دے سکتے ہيں ?
اس لئے کہ متعہ ميں شخص زندگي بھر کے لئے شريک حيات نہيں ہوتا ہے کہ عورت و مردايک دوسرے کے انتخاب ميں مشکل سے فيصلہ کريں ?اور دوسرے بات يہ کہ اس ميں نفقہ شرعي طور پر نہيں پايا جاتا ہے صرف مہر ہوتا ہے جس کي مقدار طرفين کو معين کرتے ہيں
( جيسا کہ پہلے اس کے بارے ميں پہلے اشارہ کيا جا چکا ہے)
اس کے علاوہ متعہ ميں طلاق کادرد سر يا کشمکش نہيں ہے (اگر فرضا ا?پس ميں ہم ا?ہنگي نہيں ہو پاتي ) متعہ کي مدت ختم ہونے پر رشتہ تمام ہو جائے گا ? يہاں تک کہ مرد باقي بچي ہوئي مدت عورت کو بخش کر اپنے حق سے صرف نظر کر سکتا ہے اور اس سے جدا ہو سکتا ہے ?اور طرفين کي رغبت کي ساتھ ا?ساني سے (تجديد عقد کے ذريعے )مدت کو بڑھايا جا سکتاہے ?
اس مقام پر يہ کہا جا سکتا ہے :
متعہ ايک ايساموثر اسلحہ ہے کہ جس کے ذريعے فحاشي اور دوسرے جنسي انحرافات سے مقابلہ کيا جا سکتاہے ?اور جوانوں کي ايک بڑي اہم جنسي مشکل کا راہ حل بن سکتاہے ، اور معاشرے ميں اس راہ سے انے والے بہت سے مفاسد جس سے چھوٹے بڑے سب دوچار ہوتے ہيں ختم کيا جاسکتا ہے ?
متعہ کے صيغے کا اجراء شادي کے صيغے کے مانندہے ،اور اس کے تمام اسلامي دستورات نہايت ہي ا?سان اور سادہ ہيں ? اور سبھي توضيح المسائل ميں اس کو لکھا گيا ہے ?البتہ اس بات پر توجہ رہني چاہيے کہ يہي ا?سان امر اس دستخط جيسا ہے جو کسي قيمتي ستاويز پر کيا جاتا ہے لہذا اس دستخط کو بعد ان قوانين کي پابندي کرنا ضروري ہے ?

دوسرا اہم نکتہ :

يہاں پر ايک اساسي نکتہ ہے جس کو دقت کے ساتھ سمجھنا ہوگا اور وہ يہ ہے : يہ نظام اس صورت ميں مثبت نتيجہ دے سکتا ہے ، کہ جب اس کو صحيح طريقے سے اجرا کيا جائے اور شادي کي طرح اس کا بھي ايک خاص نظام ہو، اور نظم و ضبط کے سائے ميں بر قرار ہو ?يعني موجودہ شرائط کے مطابق مرد و عورت کے کوائف وتفصيلات شادي کے مخصوص دفتر ميں مندرج ہوں، اور متعہ کا عقد نامہ تيار کيا جائے يا کوئي دوسرا طريقہ جو قابل اطمئنان ہو اختيار کيا جائے ? کہ عورت کے لئے عدت کا وقت تمام ہونے سے قبل دوسرا متعہ يا شادي نہ ہو سکے ، اور اس کے ذريعے بڑي مقدارميںقانون کے سوء استفادہ کو ختم کيا جا سکتا ہے ?
ضروري ہے کہ اس موضوع کي نظارت کے لئے ايک ادارہ تشکيل دياجائے ،اوريہ ادارہ نظارت کے ساتھ ساتھ اس مہم مسئلہ کے بارے ميں فريقين کو ضروري تعليمات بھي فراہم کرے ، اور ان کو يہ بھي سمجھائے کہ متعہ کے اجراء کے بعد معين مدت تک ايک دوسرے کے شريک رہيں گے ، ايک دوسرے سے رشتہ برقرار رکھيں گے اور ايک مشترک زندگي کے تمام اصولوں کا احترام کريں گے ?
يقينا اگر اس مسئلہ کو اوپر بيان کئے گئے بيان کے مطابق عملي جامہ پہنا ديا جائے تو فحاشي فقط ا?زاد، لاپرواہ اور بے لگام افرادکي حد تک محدود ہو جائيگي ? اور يہ بعينہ ايک حديث کا مضمون ہے جس کو اس کتاب ميں نکاح کي بحث ميں امير المومنين عليہ السلام سے نقل کيا گيا ہے ?
ان شرائط کے ساتھ عورت حقارت اور رسوائي کے احساس سے بھي محفوظ ہو جاتي ہے ، نہ مرد اپنے اپ کو عورت کا مالک اور خريدار سمجھتا ہے ?اور نہ ہي يہ عمل معاشرے ميں ذلت ا?ميز تصور کيا جائيگا،اور نہ ہي شريف افراد اس سے نفرت کا اظہار کريں گے ?بلکہ شادي کي طرح ايک عادي اور مناسب امر کي طرح اس کا خير مقدم کيا جائيگا ?
ا?يا يہ عظيم حکم ” ايک قسم کا شرعي اور جائز ا?دم فروشي “ ہے ؟ کيوں بغيرمعلومات اور تحقيق کے اس مہم مسئلہ کے بارے ميں فيصلے کئے جاتے ہيں اور ناواقف افراد کو گمراہ کيا جاتا ہے ?؟

متعہ کي اولاد:

صرف ايک سوال اس مقام پر باقي رہ جاتا ہے ،جس پر بہت زيادہ ہنگامہ کيا جاتا ہے، اس وجہ متعہ کے احکام کے بارے ميں بے توجہي ہے ،اور غير مطلع افراد يہ سمجھتے ہيں کہ يہ اس موضوع کا ايک ضعيف پہلو ہے جبکہ معمولي سے معمولي اشکال بھي اس موضوع ميں نہيںپايا جاتا، اور وہ يہ ہے کہ :
جو اولاد متعہ کے سبب پيدا ہوتي ہيں ان کا کيا حکم ہے؟، ا?يا متعہ کي اولاد ناجائز اولاد ہيں؟ ان کے مستقبل کا کيا ہوگا ؟
ميں سمجھتا ہوں کہ اس سوال کا جواب اگر گزشتہ مطالب پر توجہ کي جائے تو بالکل واضح ہوجاتا ہے اس لئے کہ جو اولاد متعہ کا ثمرہ ہيں وہ شادي کے سبب پيدا ہونے والي اولاد سے کسي بھي جہت سے مختلف نہيں ہيں ?ان کو وہ تمام شرعي اور قانوني حيثيت حاصل ہے جو دوسري اولاد کو حاصل ہوتي ہيں ?
اور خاص طور پر اگر عورت اور مرد کے کوائف و حالات وغيرہ کو مخصوص دفتر ميں ثبت و ضبط کيا جائے اور عقد نامہ وغيرہ کو تشکيل ديا جائے تو پھر کوئي پريشاني ان بچوں کو پيش نہيں ا?ئے گي ?
ہميں تعجب اس بات کا ہے کہ ناجائز تعلقات کي بنياد پر پيدا ہونے والے ناجائز بچوں کي بڑي تعداد جو ا?ج کے معاشرے ميں پائي جاتي ہے
( خصوصا مغربي اور امريکي ممالک ميں پختہ ثبوت کے ساتھ يہ موضوع ايک رسوائي کي صورت ميں سامنے ا?يا ہے) اس نے لکھنے والوں کو پريشان نہيں کيا گويا يہ لوگ ان کو نا معلوم اور سرگرداں نہيں سمجھتے ہيں، ليکن متعہ سے پيدا ہونے والے بچوں کے بارے ميں وہ پريشان ہو جاتے ہيں،جن کي ہر چيز واضح ہے ماں باپ ،انکے نکاح کے شرائط، ا?خر کار ان کي ہر چيز معلوم ہے اور وہ ايک پاک نطفہ اور پاکيزہ رحم سے پيدا ہوئے ہيں ؟
يہ بات بھي قابل بيان ہے کہ اگر طرفين بچہ کے خواہش مند نہ ہوں تو اسلام ميں اس کي کو ئي ممانعت نہيں ہے يا کسي اور ذريعے سے نطفہ منعقد ہونے پر روک لگائي جا سکتي ہے ?
ليکن اس بات کا خيال رہے کہ نطفہ کے انعقاد کے بعد بچے کا اسقاط کرنا ” حتي اگر نطفہ ايک دن ہي کا کيوں نہ ہو “ کسي بھي صورت ميں جائز نہيں ہے اور اسلامي قوانين کي نظر ميں اس کے لئے سخت سزا معين کي گئي ہے ، جو جنين کے حالات کے ساتھ بدلتي ہے ?

وقتي شادي ( مسيار)

دلچسپ بات يہ ہے کہ متعہ کا انکار کرنے والے افراد (يعني اکثر اہل سنت )جس وقت جوانوں اپنے کے اور دوسرے افراد کي جنسي مشکلات کا مشاہدہ کرنے اور ان کے تلاش کرتے اور ان کے تلاش ميں نا کام ہوتے ہيں تو پھر ا?ہستہ ا?ہستہ ايک قسم کي شادي ”متعہ کے مانند“کوماننے پر تيار ہو جاتے ہيں جس کو وہ ”مسيار“ کا نام ديتے ہيں اگرچہ وہ اس کو متعہ کا نام نہيں ديتے ، ليکن عمل کے حوالے سے اس ميں اور متعہ ميں کوئي فرق نہيں ہے،وہ اس کي طريقے سے اس (مسيار ) کي اجازت ديتے ہيں کہ شادي کا ضررورت مند کسي عورت سے (دائمي) شادي کرے( جبکہ وہ اس بات کا قصد پہلے سے کئے ہوئے ہے کہ کچھ مدت کے بعد اس کو طلاق دے دے گا )اس شرط کے ساتھ کہ وہ اس سے نفقہ ، رات گزارنے ،اور ارث کا مطالبہ نہيں کريگي ، يعني بالکل متعہ کي مانند سوائے ايک فرق کے ساتھ کہ اس ميں طلاق کے ذريعے ايک دوسرے سے جدا ہوتے ہيں اورمتعہ ميں مدت کے تمام ہوجانے پر يا اس کے بخش دينے پر، يعني ا?غاز ميں دونوں کي نظر ميں مدت معين تھي ?
اس سے زيادہ دلچسپ بات يہ ہے کہ بعض اہل سنت کے جوان جو شادي کي مشکلات ميں گرفتار اور پريشان تھے ، انہوں نے انٹرنيٹ کے ذريعے ہم سے رابطہ کيا اور کہا کہ ہم متعہ کے مسئلہ ميں شيعوں کي پيروي کرنا چاہتے ہيں کيا پيروي کرنے ميں کوئي مانع تو نہيں ہے؟
ہم نے کہا کہ نہيں کوئي مانع نہيں ہے ?!
يہ لوگ متعہ کا انکار کرتے ہيں ، ليکن”
نکاح مسيار “کو قبول کرتے ہيں ،در حقيقت نام کو قبول نہيں کرتے مسمي کو قبول کرتے ہيں ?جي ہاں ضرورت انسان کو حقيقت قبول کرنے پر مجبور کرتي ہے،ہرچند انسان اس کا نام زبان پر نہ لائے ?
اس کا نتيجہ يہ نکلتا ہے ، کہ جو لوگ متعہ کي مخالفت پر اڑے ہوئے ، وہ جانے ان جانے ميں فحاشي کا راستہ ہموار کر رہے ہيں ،مگر يہ کہ وہ متعہ کي مانند يعني نکاح مسيار کي پيش کش کريں ? اسي وجہ سے اہل بيت سے مروي روايات ميں بيان ہو ا ہے کہ ” اگر متعہ کي مخالفت نہ ہوتي تو کوئي بھي زنا سے ا?لودہ نہ ہوتا“
اسي طرح جن لوگوں نے متعہ سے سوء استفادہ کيا ہے ?کہ جوواقعا ضرورت مند افراد اور محروم افراد کے لئے جائز کيا گيا تھا، اور انہوں نے اس کے چہرے کو بدنما بنا کرپيش کيا اور اس کو اپني ہوس کے پورا کرنے کا وسيلہ بناليا ، ان افراد نے بھي اسلامي معاشرے کے لئے زنا کا راستہ ہموار کيا ہے ، اور اس ميں ا?لودہ ہونے والے افراد کے گناہ ميں شريک ہيں ? اس لئے کہ يہ افراد اس کے صحيح استعمال کرنے ميں عملي طور پر رکاوٹ بنے رہے ?
بہر حال اسلام ايک الہي دستور العمل ہے اور ہميشہ انساني فطر ت کے ساتھ رہتا ہے ? اورجس نے انسان کي تمام واقعي ضرورتوں کي پہلے سے پيشين گوئي کي ہے، اس کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ اس نے وقتي شادي کا ذکر اپنے دستورات ميں نہ کيا ہو اور جيسا کہ ا?گے ذکر کيا ہوگا کہ وقتي شادي کا ذکر قرا?ن مجيد ميں بھي ہے اور احاديث نبوي (ص) ميں بھي اور صحابہ نے بھي اس پر عمل پر کيا ہے ? البتہ بعض افراد اس حکم کے منسوخ ہونے کے قائل ہيں اگر چہ اس بارے ميں ان کے پاس محکم دلايل موجود نہيں ہيں ?

”متعہ“ کے سلسلے ميں بحث کا نتيجہ

اب تک جو بحث متعہ کے بارے ميں کي گئي اس کا نتيجہ يہ نکلتا ہے:
نکاح، ايک ايسارابطہ ہے جو مرد وعورت کے درميان مختلف حقوقي اثرات کے ساتھ بر قرار ہوتا ہے ?شادي ميں عقد کي ضرورت ہوتي ہے جو انجاب و قبول کے ذريعے اپنے خاص شرائط کے ذريعے انجام پاتا ہے ?
اگرنکاح ” مدت“کے اعتبار سے بغير کسي قيد اورمحدوديت کے انجام پائے تو وہ ”شادي“ کي صورت اختيار کر ليتا ہے ، کہ جو ہميشہ کے لئے باقي رہے گي ،مگريہ کہ طلاق يا اس کے مانند کے کسي چيز کے ذريعے اس کے رابطہ کو منقطع کر ديا جائے ?
ليکن اگر مدت کے اعتبار سے اس کو ايک دن ، ايک مہينہ ايک سال يا زيادہ سے مقيد کرديا جائے تو اس کو متعہ کا نام ديا جاتا ہے ?ليکن نکاح کے معني اور شريک حيات کے حوالے سے ان دونوں (شادي اور متعہ ) ميں کوئي فرق نہيں ہے ?تنہا مدت کے حولے سے فرق پايا جاتا ہے ?
يہ دونوں احکام کے حوالے سے اکثر موارد ميں مشتر ک ہيں ، صرف مدت کي قيد ميں ايک دوسرے سے الگ ہيں ،ليکن يہ فرق اصولي اور جوہري فرق نہيں ہے ? بلکہ ايک صنف کي ايک نوع کے مانند ہے جيسے نسل کے اعتبار سے سفيد اور کالے کا فرق کہ جس ميں کلمہ اور حقيقت کي وحدت کا خيال رکھا گيا ہو?اور يہ اختلاف کي کيفيت فقط عقد نکاح اور دو انسانوں کا ايک دوسرے کا شريک حيات ہونے، ميں منحصر نہيں ہے بلکہ اس کي بہت سي مثاليں معاملات اور مالکيت کے موارد جس ميں واسطہ کے ذريعے خريد و فروخت عمل ميں ا?تي ہے“ پائي جاتي ہيں ?مثلا کبھي انسان کوئي معاملہ بغير قيد اور شرط کے انجام ديتا ہے لہذا اس طرح کے معاملے ميں جو ا?ثار مترتب ہوتے ہيں وہ دائمي اور ہميشگي مالکيت کے ہوتے ہيں ?

متعہ کے بارے ميں گفتگو

?مگر يہ کہ بعد ميں کسي اختياري چيز کے ذريعے جيسے دوبارہ خريد و فروش ،ہبہ اور صلحہ سے ياغير اختياري چيز کے ذريعے جيسے نقصان ، اور موت ہو جانے کي صورت ميں يہ مالکيت زائل ہو جاتي ہے ?اور کبھي کبھي شروع ہي سے ملکيت کو محدود وقت کے ساتھ خاص کر ديا جائے جيسے فسخ اور انفساخ کي شرط معاملے ميں لگا دي جائے ? يہ بات بديہي ہے کہ ملکيت کي عمر کا معين ہونا يا کم ہونا اسي عقد کے مطابق ہوگي جو اس ميں معين کي گئي ہے،( يعني قہري فسخ اور انفساخ کے وقت تک )بہر حال يہ وہ مطالب ہيںجن ميں عقل اور شريعت دونوںکا اتفاق ہے ?
اب ہم دانشمند افراد ، علماء اسلام ، اورصاحبان قلم سے يہ سوال کر سکتے ہيں کہ متعہ کے بارے ميں ( جو شادي کي ايک قسم ہے)يہ ہنگامہ کس بات کا ہے ؟ ا?يايہ موضوع واقعا سر زنش کا مستحق ہے کہ تم ہميشہ شيعوں پر اس کے حوالے سے مسلسل حملے کرتے ہو اور ان کي مذمت کرتے ہو? ؟
کيا يہ مختصر اور موجز بحث کافي نہيں ہے جو تم کو مسلمانوں ميں دشمني کي ا?گ کو بھڑکانے سے باز رکھ سکے اور حق کے سامنے اطاعت اور تسليم کا تقاضاکرے؟
ميں حق کي عزت اور شرافت کي قسم کھا کر يہ کہتا ہوں کہ ميں نے جو کچھ بھي اس مقام پر کہا ہے وہ سوائے حق کي حمايت کے کچھ نہيں ہے، اگر کہيں تنقيد بھي کي ہے تو وہ تنہا باطل کے لئے ہے،ہم ہميشہ خدا پر تکيہ کرتے ہيں ، ا?خر کا ر ہم سب کو اس کي بارگاہ ميں جانا ہے ?
شيعوں کے نقطہ نگاہ سے شادي کي اس بحث کو ہم اسي پر قناعت کرتے ہيں?البتہ نکاح کے احکام، اولاد ، نفقہ ، عدت کي قسميں،اور اس کے مانند دوسري بحثوں کے بارے ميں زيادہ مطالعہ کے لئے شيعوں کے گراں قدر دانشمندحضرات کي فقہي کتابوں کي طرف رجوع کيا جا سکتا ہے ?
اس بارے ميں خوش قسمتي سے بہت سي کتابي موجودہيں بعض اس حد تک مختصر ہيں،کہ اختصار کے ساتھ تمام فقہي ابواب ،طہارت سے حدود اور ديات تک تمام مطالب کو شامل ہيں?اسي کے مقابلے ميں بعض ددسري کتابيں اس قدر شرح کے ساتھ موجود ہيں جن ميں تنہا فقہ کے ابواب کو بيس جلدوں ميں پيش کيا ہے(جس ميں ہر جلد صحيح بخاري اور صحيح مسلم کے برابر ہے)جيسے کتاب ”
جواھر“اور ”حدائق“اور دونوں کے درميان متوسط کتابيں بھي اس قدر موجود ہيں جو شمار ميں نہيں ا?سکتي ہيں ?
?? اس قسم کے اقدامات اس لئے عاقالانہ نہيں ہيں کہ يہ قانون خلقت کا مقابلہ کرنا ہے ?
?? امام صادق (عليہ السلام ) کا قول ہے”
لولا ما نھي عمر عنھاما زني الا شقي“ ترجمہ: اگر عمر اس امر سے منع نہ کرتا تو سوائے شقي کے کوئي زنا کا ارتکاب نہ کرتا?(وسائل الشيعہ جلد ??) اہل سنت کي بہت سي کتابوں ميں يہ حديث تفصيل سے بيان کي گئي ہے ? قال علي
(عليہ السلام ) ” لو لا ان عمر نہي عن المتعہ ما زني الا شقي“ ترجمہ: اگر عمر متعہ سے منع نہ کرتا تو سوائے شقي انسان کے کوئي اس کا مرتکب نہ ہوتا? (تفسيرطبري، جلد ? صفحہ ???؛ تفسير در منثور ، جلد ?، صفحہ ??? ، و تفسير قرطبي ، جلد ? صفحہ ???)
?? ”
شرط انفساخ“ ايک قسم کا ” شرط نتيجہ“ ہے جو معروف فقہ ميں اس معني ميں پايا جاتا ہے کہ دو شخص ايک معاملہ کو کسي شرط کے ساتھ منعقد کريں اور کوئي واقعہ پيش ا?جائے يا دونوں ميں کوئي ايک کسي کام کو انجام دے تو معاملہ بغير اس کے کہ فسخ کا صيغہ اجراء کياجائے خود بخود فسخ ہو جاتا ہے ?
??جو اسلامي علوم منز ل کمال تک پہنچ چکے ہيں ان ميں سے ايک علم فقہ ہے ، يہ بات سچ کہ اس زمانے ميں وسعت اور نظم و دقت کے اعتبار سے شيعوں کي فقہ بے نظير ہے،جب تک کوئي اس کو نزديک سے نہيں ديکھتا يقين نہيں کرتا?بہت سے مشکل اور پيچيدہ مسائل يہاں تک کہ فقہي نادر فروعات کو بھي شيعوں کي مفصل فقہي کتابوں ميں مکمل طور پر زير بحث لايا گيا ہے ?حتي فروعات اور نئے مسائل
( وہ مسائل جو ہمارے زمانے ميں پائے جاتے ہيں)جن سے انسان دو چار ہوتا ہے ، بيمہ ، ايڈوانس مني ، مختلف کمپنيز،حق طبع وغير پر بھي مستقل کتابيں تاليف ہوئي ہيں? اورشيعہ اس کاميابي کے پس منظر ميں پہلے مرحلے ميں اہل بيت (عليھم اسلام ) کے مديون ہيں جنہوں نے شيعوں کے لئے باب اجتہاد مسدود نہيں کيا ، اور اپني روايات اور احاديث کے ذريعے مسلسل ھدايت کرتے رہے